سیاسی عدم استحکام وطن عزیز کیلئے خطرناک

22

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ہم رہیں گے یا مخالفین۔ ملک کے دشمن خوش ہیں کہ ان کا ایجنڈا پورا ہو رہا ہے۔ حکمران لڑائیاں جاری رکھ کر پاکستان کو شام، لیبیا اور یمن کی طرح بنائیں گے۔ سارا انتشار پی ڈی ایم، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی کرسی، ذاتیات اور مفادات کے لیے جنگ کی وجہ سے ہے۔ ان کی لڑائی میں پاکستان دنیا بھر میں تماشا بن گیا۔
سیاسی جماعتوں نے مذاکرات نہ کیے تو رہی سہی جمہوریت بھی ختم ہو جائے گی۔ قومی ادارے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی دھڑے بندی کا شکار ہوگئے۔ اداروں کے اندر جنگ کا آغاز بدترین حالات کا آئینہ دار ہے۔ ملک پر ایسا ٹولہ مسلط ہے جس نے عوام کا جینا عذاب بنا دیا۔ ٹرائیکا نے اداروں کو تباہ کیا۔ ایوان کی عزت کو خاک میں ملایا۔ یہ چاہتے ہیں کہ عدالتیں ان کی مرضی کے مطابق فیصلے کریں۔ الیکشن کمیشن ان کا تابع رہے اور انہیں ہر لمحہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری میسر ہو۔ انہیں اپنے اقتدار کو طول دینے کے سوا کسی سے غرض نہیں۔ اقتدار میں رہ کر یہ ظالم جاگیردار اور کرپٹ سرمایہ دار لوٹ مار کرتے ہیں۔ اپنی جائیدادیں بناتے ہیں اور عوام کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے تحائف بانٹتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ ملک میں اقتصادی بدحالی پہلے ہی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور آئی ایم ایف کے باربار کے تقاضوں سے قومی معیشت کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں نکل رہا۔ اگر ان حالات میں ملک میں سیاسی‘ عدالتی اور آئینی بحران بھی شدت اختیار کرلیتا ہے تو ہماری سلامتی کے درپے بھارت کو بھی ہماری ان اندرونی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا جبکہ ماضی کی طرح پورے سسٹم کی بساط لپیٹے جانے کے حالات بھی سازگار ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو آج قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کے معاملہ فہمی اور اجتماعی افہام و تفہیم کے راستے پر آنے کے متقاضی ہیں۔ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری مقصود ہے تو اپنی اپنی اناؤں کو تج کر ذاتی انتقام و منافرت کی فضا کو مزید فروغ پانے سے روکنے کا لائحہ عمل طے کیا جائے جو تمام سٹیک ہولڈرز کے مابین قومی ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے۔
عدالتیں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن مکمل غیر جانبدار ہو جائیں، سیاسی جماعتیں قومی انتخابات کے لئے راضی ہو جائیں۔ ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا جائے یہی مسائل کا حل ہے، مرکز اور چاروں صوبوں میں ایک دن الیکشن کا اعلان ہونا چاہیے۔۔ گزشتہ ایک سال سے نشوونما پانے والے سیاسی انتشار کا نقصان ہمیں پہلے ہی ملکی معیشت کے کمزور ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں اپنی ناروا شرائط کے ساتھ مزید جکڑنے کی کوششوں میں ہے اور ہمارے ایٹمی پروگرام کے بدخواہ عناصر بھی ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس لئے آج ہمیں قومی سیاست میں ذاتی سیاسی مفادات اور اپنی اپنی اناؤں سے ہٹ کر قومی اتحاد و یکجہتی کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ اس کیلئے بہرصورت تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کے تناظر میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
آئین پاکستان میں تو ریاستی انتظامی اداروں کے اختیارات اور انکی حدود و قیود متعین ہیں۔ اگر تمام ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کریں تو سسٹم کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ادارہ جاتی ٹکراؤ کی کوئی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ماضی بھی اس معاملہ میں بری مثالیں قائم کر چکا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اپنی اپنی مفاداتی سیاست اور اقتدار میں شیرینی حاصل کرنے کیلئے ماورائے آئین اقدام کی راہ ہموار کرتے اور اس کیلئے جرنیلی آمروں کو اپنے کندھے پیش کرتے رہے جبکہ ہماری عدلیہ نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے ماورائے آئین اقدامات کو آئینی اور عدالتی تحفظ دینے کے راستے نکالے۔ چنانچہ اس وطن عزیز کے تقریباً 35 سال جرنیلی آمریتوں کی نذر ہو گئے اور بدقسمتی سے ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے ابھی تک اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ اسکے باوجود کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے بعد باہم دست و گریباں انہی سیاسی قیادتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر بحالی جمہوریت کی طویل اور انتہائی کٹھن جدوجہد بھی کرنا پڑی ہے‘ پھر بھی وہ جمہوری نظام کو ایک دوسرے کو قبول اور برداشت کرنے کے روادار نہیں اور آج بھی وہ اپنی اپنی مفاداتی سیاست کے اسیر ہو کر ماضی جیسے ماورائے آئین اقدام کے راستے نکالتے نظر آرہے ہیں۔
تعصبات اور نفرتوں کے ماحول میں نوجوانوں کو اٹھنا ہو گا۔ اب وہی قوم کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ یوتھ اسلامی جمہوری انقلاب کے لیے کردار ادا کرے، نوجوان جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دست و بازو بن کر پاکستان کی تعمیر ان خطوط پر کرنے کے لیے کردار ادا کریں جس کے لیے اسلامیان برصغیر نے عظیم قربانیاں دیں۔
منصفانہ انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کا مالی وانتظامی لحاظ سے خودمختار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ فوج کی جانب سے آئندہ مارشل لاء نہ لگانے کے اعلان سے شکوک وشبہات ختم ہوگئے۔ہم چاہتے ہیں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور سٹیبلشمنٹ مکمل طور نیوٹرل ہوجائے۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ ملک میں سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل گئے۔ انتقام کے نعرے ملک کے لیے تباہ کن ہیں اور پولرائزیشن خطرناک حدیں چھو رہی ہے۔ اب نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قوم میں اتفاق پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔ سیاست گالم گلوچ کا نہیں، دلیل سے بات کرنے کا نام ہے۔

تبصرے بند ہیں.