قائد سے زیادہ مقبول لیڈر

25

پاکستان کی سیاست ایک عرصہ سے جس انتشار کا شکار ہے اسے قرار نہیں آ رہا اور نہ ہی اس کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ اس مرتبہ ارادہ یہی تھا کہ اصولی اختلافات سے ہٹ کر سیاست کو جھوٹ اور فریب کی مدد سے جس طرح عدم استحکام سے دو چار کیا گیا اس پر کچھ گذارشات قارئین کی نذر کی جائیں۔ اس دوران 10اپریل کو یوم دستور منایا گیا اور یہ دن ہر اہل شعور پاکستانی کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اسی دن 1973کا آئین منظور ہوا تھا اور اس سال آئین کو منظور ہوئے پچاس سال ہو گئے ہیں اور جمہوری قوتوں نے آئین پاکستان کے منظور ہونے کی گولڈن جوبلی تقریبات کا انعقاد کیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے دستور کنونشن میں ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ان تقریبات میں خصوصی شرکت ان کی آئین پاکستان سے بے لوث وابستگی کی علامت تھی۔اب کچھ لوگوں نے کہ جن کا کاروبار ہی جھوٹ اور بے جا تنقید پر چلتا وہ محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس تقریب میں شرکت پرشور کر رہے ہیں اور چونکہ دل میں چور ہے تو کہہ رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ہال میں دستور کنونشن کا انعقاد کیا گیا تھا اور اس میں 120یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے معززین نے بھی شرکت کی تھی تو اس طرح اصل سوال تو یہ بنتا ہے کہ دیگر محترم ججز نے شرکت کیوں نہیں کی۔ خیر اسے چھوڑیں قاضی فائز عیسیٰ کا ذکر آیا تو گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ان کے والد محترم قاضی محمد عیسیٰ کے متعلق فقط جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بغض میں گمراہ کن پروپیگنڈا کر کے تاریخ کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم اس جھوٹ کا ذکر نہیں کریں گے ورنہ ہم بھی اس جھوٹ کو پھیلانے کے جرم میں شریک ہو جائیں گے لیکن جو حقائق ہیں انھیں قارئین کے گوش گذار کر دیتے ہیں تاکہ وہ اس پروپیگنڈا مہم سے کہیں متاثر نہ ہو جائیں۔قاضی محمد عیسیٰ آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کے صدر تھے اور انگریز سرکار نے جب یہ کہا کہ بلوچستان میں حق رائے دہی کے بجائے شاہی جرگہ جو بلوچ سرداروں پر مشتمل تھا اس کے ارکان الحاق پاکستان کا فیصلہ کریں گے تو انتیس جون 1947کو ہونے والے شاہی جرگہ کے اجلاس میں قاضی محمد عیسیٰ کی کاوشوں سے شاہی جرگہ کے 65 میں سے 40ارکان نے الحاق پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ انھیں 1951میں برازیل میں سفیر بنا کر بھیجا گیا اور 1990میں ان کی وفات کے 14سال بعد ان کی خدمات کے اعتراف میں محکمہ ڈاک نے ان کے نام کا ٹکٹ جاری کیا۔
قاضی محمد عیسیٰ کو میرے محترم قائد بانی پاکستان نے بلوچستان مسلم لیگ کا صدر بنایا تھا اور گذشتہ دنوں ایک صاحب نے جو کہ کافی عرصہ سے میڈیا پر
ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے نظر آتے ہیں انھوں نے ہرزہ سرائی کی ہے کہ عمران خان عوام میں قائد اعظم سے بھی زیادہ مقبول ہیں۔ جن صاحب نے یہ جھوٹ بولا ہے ہم تو شروع دن سے ایسے لوگوں کو لنڈے کے دانشور کہتے ہیں انھیں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں شاید سب کچھ ہی بھول گیا ہے انھیں یاد رکھنا چاہئے تھا کہ اس وقت قائد اعظم بر صغیر پاک و ہند یعنی متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیڈر تھے جس میں پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ موجودہ بنگلا دیش بھی آتا تھا اور اب تو ہر چیز گوگل سے پتا چل جاتی ہے تو سرچ کر کے تو دیکھیں کہ 23مارچ کو اس وقت کے منٹو پارک میں جو اجتماع ہوا تھا اس کی جو تفصیل بتائی جاتی ہے وہ یہی کہتی ہے کہ پورا پارک اس طرح سے بھرا ہوا تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور اس وقت منٹو پارک موجودہ پارک سے رقبہ میں کہیں بڑا تھا اور اس زمانے میں عوام کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں رکھنے کا رواج بھی نہیں تھا اور میرے قائد سے زیادہ جس عمران خان کی مقبولیت کے دعوے کئے گئے وہ عمران خان تو چند دن پہلے مینار پاکستان میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں کرسیاں رکھ کر بھی 83سال پہلے والے منٹو پارک کے مقابلہ میں انتہائی کم جگہ کو بھی پوری طرح سے نہیں بھر سکے اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ تھی اور 1940میں دو کروڑ اسی لاکھ کے قریب تھی اور اب وقت لاہور کی آبادی سوا کروڑ سے زیادہ سے زیادہ ہے تو میرا چیلنج ہے کہ اگر عمران خان میرے قائد سے زیادہ عوام میں مقبول ہیں تو وہ اس وقت کے منٹو پارک جتنے رقبہ میں بغیر کرسیوں کے اس سے دگنی عوام کو لا کر دکھائیں اس لئے کہ اب آبادی کا تناسب بھی بڑھ چکا ہے۔ گذارش ہے کہ اپنی گندی سیاست میں میرے قائد کو نہ لائیں میرے قائد کو تو اپنے بیگانوں اور تاریخ نے جس بلند مقام پر فائز کر دیا ہے خان صاحب ان کی گرد تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے اس لئے ان کا تو ذکر ہی کیا جو لوگ اس قسم کی عامیانہ باتیں کر کے اپنے نمبر ٹانک رہے ہیں ان سے عرض ہے کہ کیا وہ عوام کو بالکل ہی احمق سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے ہر جھوٹ پر یقین کر لے گی کیا عوام کو ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی جلسے اور ان کی بے پناہ عوامی مقبولیت یاد نہیں ہے کیا انھیں میاں نواز شریف کے جلسے یاد نہیں اور ہم اپنی بات نہیں کرتے بلکہ گوگل پر عوامی اجتماعات کو سرچ کریں تو تین ملین یعنی تیس لاکھ عوام10اپریل 1986میں محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبال کے لئے لاہور میں جمع ہوئے تھے اور اس وقت لاہور کی آبادی 60لاکھ کے قریب تھی تو ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ میرے قائد کو بخش دیں اگر مقبولیت کا اندازہ لگانا ہی ہے تو 10اپریل 1986 جتنے عوام کو کسی جلسے میں لانا تو آپ کے بس کی بات نہیں ہے اس سے آدھا یا ایک چوتھائی عوام ہی اپنے کسی جلسہ میں لا کر دکھا دیں تو اس کے بعد انسان بات کرتا ہوا اچھا بھی لگتا ہے
انسان کے اپنے پاس جب کہنے اور بتانے کو کچھ نہ ہو تو پھر اس کی مجبوری بن جاتی ہے کہ جھوٹ کا سہارا لے لہٰذا اسی طرح کا ایک اور جھوٹ کہ پاکستان اور اسرئیل کے درمیان ٹریڈ شروع ہو گئی ہے۔ پہلے ہم سمجھے کہ یہ سوشل میڈیا کے لوگوں کی پوسٹ ہے لیکن نہیں جناب بابر اعون جیسے سینئر رہنما نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں جب یہی بات کہی تو پھر وفاقی حکومت کو اس کی تردید کرنا پڑی۔ اس خبر پر جس جس نے بھی یقین کیا ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے اس لئے کہ جب بھی کوئی چیز برآمد کی جاتی ہے تو اس کا پورا ریکارڈ ہوتا ہے اور اس سے پہلے اسرائیل سے تجارت کے لئے قانون میں ترمیم کی ضرورت تھی لیکن ماحول یہ بن گیا ہے کہ کوئی چیز نہیں دیکھنی بس اپنے مطلب کے جھوٹ پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لینا ہے اور اس انتہائی گمراہ کن ذہنی کیفیت کو شعور کا نام دیا جا رہا ہے اور چونکہ جھوٹ کی معیاد زیادہ نہیں ہوتی اس لئے جب اس کا پردہ فاش ہوتا ہے تو پھر حالت یہی ہوتی ہے کہ
دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے

تبصرے بند ہیں.