رجیم چینج آپریشن کلوزڈ

28

بحرانوں کا پاکستان ہی ملا ہے اس قوم کو۔ یا تو پاکستانی حکمران طبقہ یہ تسلیم کر لے کہ وہ حکمرانی میں مکمل ناکام رہا ہے یا پھر یہ تسلیم کر لے کہ پاکستان پر حقیقی حکمرانی ہمیشہ کسی اور کی رہی ہے۔ قوم کو دھوکے میں رکھنے کا وقت گزر گیا اب صرف جبر اور جابرانہ تسلط سے ہی ان کی حکمرانی چل سکتی ہے۔ ہوائیں بتا رہی ہیں کہ پاکستان کی ٹانگیں توڑ کے اور بازو مروڑ کے اسے عمران خان کے حوالے کیے جانے کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ یہ خبریں تو خیر بہت پہلے ہی نکل آئی تھیں کہ اب جو کچھ کریں گی عدالتیں ہی کریں گی۔ سو عدالتوں کو میدان بنایا گیا اور حیرت کی بات ہے کہ عدالت کے احترام کا ڈرامہ تک رچایا نہیں گیا بلکہ پوری کوشش کی گئی ہے کہ عدالت عالیہ کو بے توقیر کیا جائے کہ کہیں یہ نہ ہو عدالت کی ساکھ سیاست کی ساکھ سے بہتر ہو جائے۔ نوازشریف نے عدالتوں سے ٹکرانے اور ججز پر کیچڑ اچھالنے کا سابقہ ریکارڈ بحال رکھا ہے۔ الیکشن میں شکست مقدر ہوتی دیکھ کے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ اب ان کے ہاتھوں اگلا نشانہ بننے کی باری حسب معمول اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ پنجاب میں ایک اہم تبادلہ و تقرر نے نئے موسموں کی نوید سنا دی ہے اور آئندہ وفاق میں بھی تبدیلیوں کا اشارہ دے دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پر سیاست تنگ کر دینے کی مزید کوششوں کو روک دیے جانے کا کریڈٹ شاہ سلمان کو دیا جا رہا ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ شاہ سلمان نے بھی کسی اور کا ہی پیغام پہنچایا ہو۔ بڑے ممالک ہوں یا چھوٹے ڈپلومیسی نہیں رکتی۔ نوازشریف کا سعودی عرب کا وزٹ بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے
کہ وہاں ان کو مزید ہدایات دی جائیں گی۔ اس تمام بدلتی ہوئی صورتحال میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان رنجشیں ختم کرا کر نئے اور دوستانہ سفارتی روابط کا آغاز کرانے والے چین کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر روس یوکرائن جنگ کے خاتمے کے لیے فرانس اور سپین کے حکمران چل کر چین کے دروازے پہ جا کے بیٹھ سکتے ہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو گیا ہے۔ چین کو کمزور پاکستان وارے کھا سکتا ہے لیکن امریکہ کا پاکستان اس کے وارے میں نہیں ہے۔ جنرل باجوہ نے امریکہ کے کہنے پر سی پیک پراجیکٹ میں روڑے اٹکائے اور عمران خان کے ہاتھوں معاملات خراب کرائے جس سے چین اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان میں طاقتور عوامی حکومت کی ضرورت ہے جو امریکہ کی زیر اثر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑی ہو سکے۔ پچھلے ایک سال کے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سمجھنا نہایت آسان ہے کہ پاکستانی عوام اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اب اگر عمران خان دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں آتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ اتنا کچھ سبق حاصل کرنے کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر چلے۔ اگرچہ عمران خان کو ایک نہایت کمزور معیشت والا پاکستان ملے گا لیکن اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں کہ پاکستانی عوام مرتی ہے یا جیتی۔ سارا عذاب تو عام لوگوں نے جھیلنا ہے۔ چین خود اس وقت دنیا کے مختلف غریب یا ضرورت مند ممالک کو قرضے فراہم کر کے وہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ قرضوں سے تسلط قائم کرنے اور قائم رکھنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سرمایہ دار طبقے نے ہمیشہ عام انسانوں سے لے کر قوموں اور ملکوں تک کو قرضے دے کر اپنے شکنجے میں رکھا ہے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ کمزور پڑتے یورپی ممالک بھی اب چین سے قرضے لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اگرچہ اس وقت یورپ اور امریکہ چین سے اکنامک وار لڑنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور چین سے اپنی اپنی انڈسٹری واپس لا رہے ہیں تاکہ چین پر صنعتی انحصار کم سے کم رہ جائے۔ فرانس میں تو میڈ اِن فرانس کی تحریک کا باقاعدہ آغاز بھی ہو چکا ہے۔ فرانس کے لوگ میڈ اِن فرانس مصنوعات کے لیے زیادہ قیمت دینے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن گیس کے بحران نے جو جھٹکا فرانس اور یورپ کو لگایا ہے اس کے آفٹر ایفیکٹس بھی باقی ہیں۔ یوکرین امریکی وار میں امریکہ کی جنگ جاری رکھنے کی ہٹ دھرمی نے جس طرح یورپی ممالک کو چین کی طرف دھکیلا ہے کوئی بعید نہیں کہ معاشی طور پر کمزور ہوتے یورپ کو معاشی بحالی کے لیے چین ہی کی طرف دیکھنا پڑ جائے۔ جب کوئی بھی باشعور اور آنکھیں کھلی رکھنے والا انسان دنیا کے حالات اور اپنے اپنے اپنے ملک کی بقا کے لیے جدوجہد کرتے حکمران دیکھتا ہے تو اسے پاکستانی حکمرانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے کہ نہ ان کو ملک ڈوبتا نظر آتا ہے نہ عوام مرتی دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ خدا نخواستہ اگر ملک تباہ بھی ہو جائے تو ہمارے حکمران اس کے ملبے پہ بیٹھے اپنے اپنے قبضے اور حصے بخرے کے لیے لڑ رہے ہونگے۔ مئی میں پنجاب کا الیکشن، پھر خیبر پختون خوا کا الکیشن اور پھر دو ہزار چوبیس میں باقی الیکشنز۔ رجیم چینج آپریشن مکمل۔

تبصرے بند ہیں.